اسلام نے ہی سب سے پہلے عربوں میں اخلاق وتمدن کی
روح پھونکی، پھر پوری دنیا نے عربوں کے ذریعہ اخلاق وتمدن
کا سبق حاصل کیا، ورنہ اس سے پہلے پوری دنیا تہذیب وتمدن
سے کوسوں دور تھی، چاہے قدیم ہندوستان ہو یا فارس وروم، ہرجگہ
اسلام نے ہی تہذیب واخلاق اور انسانیت نوازی کا درس دیا
اور لوگوں کے رہن سہن، بود وباش میں حسین تبدیلیاں رونما
ہوئی اور پوری انسانیت ایک صالح شاہ راہِ زندگی پر
گامزن ہوئی، یہی نہیں؛ بلکہ ایک وقت تھا کہ ساری
دنیا کے طلبہ مختلف عصری علوم وفنون کی تحصیل کے لیے
بھی اسلامی ملکوں کا ہی سفر کرتے تھے، اس لیے کہ مسلمان ہی
ریاضی وفلسفہ اورجغرافیہ وغیرہ عصری علوم کے امام
تھے، آب پاشی وکاشت کاری، جہازسازی وقلعہ بندی،
جنگی بیڑے وتوپ سازی میں وہی سب سے آگے
تھے؛چنانچہ ’’الجبرا‘‘ میں خوارزمی، ’’کیمیا‘‘ میں
ابوجعفر کوفی، ’’ہیئت‘‘ میں احمد بن محمد ’’تاریخ‘‘ میں
ابن خلدون، ’’جغرافیہ‘‘ میں ادریسی، ’’طب‘‘ میں
بوعلی سینا، ’’جراحت ‘‘ میں ابن رشد اور الیقاسیس
وغیرہ کا ذکر کیے بغیر مذکورہ فنون ناتمام رہ جاتے ہیں،
اسی طرح مختلف سائنسی آلات وایجادات کا سہرا بھی
مسلمانوں کے سر جاتا ہے؛ چنانچہ ’’ناسا‘‘ کے ہیڈکوارٹر میں شیرِمیسور
’’ٹیپوسلطان‘‘ کا مجسمہ، اولین راکٹ کے موجد کی حیثیت
سے نصب کیاگیا، اسی طرح خوردبین کی ایجاد
اصلاً ’’ابوالحسن‘‘ نے کی، گھڑی کی ایجاد بھی ایک
مسلمان نے کی، یہ چند نمونے ’’مشتے از خروارے‘‘ کے طورپر پیش کیے
گئے ہیں، ورنہ اس طرح کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے، یہ
الگ بات ہے کہ بعد کے زمانے میں مغرب نے مسلم سائنس دانوں اور موجدوں کے یا
تو نام بگاڑ دیے یا کسی مسلمان کی ایجاد کردہ چیز
کو اگر کسی دوسرے نے کچھ جزوی ترقی دی، تواس ایجاد
کو اسی ترقی دینے والے کی طرف منسوب کردیا، اس کی
واضح مثالیں عربوں کی جنگی اصطلاحات ہیں جو توڑ مروڑ کر
الگ اور نئی اصطلاحات باور کرادی گئی ہیں، جس طرح آج
بھی ہندوستان میں مسلم نام کے شہروں اور قصبات کو ان سے ملتے جلتے
ہندو نام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مغرب کی اس سازش سے متاثرہوکر لوگ
کہتے ہیں کہ: مسلمانوں کے پاس عصری علوم وفنون نہیں ہیں،
نہ ہی ماضی میں اور نہ حال ومستقبل میں، اور کچھ لوگ
مسلمانوں کے شاندار ماضی کو تومانتے ہیں، مگر حال کی بدنمائی
اور مستقبل کی تاریکی کا شکوہ کرنے سے نہیں چوکتے اور
کہتے ہیں کہ آج کسی شعبے میں ان کا کوئی قابلِ قدر
کارنامہ نہیں ہے۔ نہ تو سائنس کی دنیا میں ان کا
کوئی مقام، نہ ہی طب کی میدان میں ان کی کوئی
حیثیت، انجینئرنگ کے شعبے میں بھی ان کا کوئی
حصہ نہیں؛ حتیٰ کہ اخلاق و تہذیب سے بھی عاری،
فن وثقافت سے بھی بے بہرہ ہیں۔
لیکن اگر ہم ان کمزوریوں
اور کمیوں کے بنیادی اسباب پر غور کریں گے تو ایک حیرت
انگیز سچائی ہمارے سامنے آئے گی کہ اسلامی تعلیمات
اور اپنے ملک سے سچی اور حقیقی محبت نہ ہونے اور اپنی آبائی
مٹی سے لگائو نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان مال و دولت کی حرص اور
مادیت کی ہوس کے شکار ہوجاتے ہیں، وہ تعلیم وتعلّم کو
اپنے ملک وقوم کی ترقی کا ذریعہ نہیں بناتے؛ بلکہ انھیں
ذاتی مال ودولت کی زیادتی مقصود ہوتی ہے، وہ یہ
نہیں سوچتے کہ ان کی خدمت کا سب سے زیادہ حق دار، ان کا اپنا
ملک ہے، نہ کہ مغرب؛ جہاں انھیں کچھ روپے زیادہ ضرور مل جائیں
گے، ان کی ذاتی زندگی میں کچھ چمک دمک آجائے گی،
لیکن ان کا ملک مزید تاریکیوں میں چلا جائے گا، انھیں
بنگلے، کاریں اور بلندیوں پر اڑنا نصیب ہوجائے گا؛ لیکن
ان کا ملک مزید پستیوں کی دلدل میں دھنس جائے گا، انھیں
کچھ منافع یقینا حاصل ہوجائیں گے؛ مگر ان کے ملک کا بہت بڑا فکری
اورمادی خسارہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ جب سے مغرب
نے کچھ ٹکڑے ڈالنے شروع کیے ہیں، کارگرصحت مند اور چیدہ اذہان
نے مغرب کی ہجرت شروع کردی ہے، ایک دوڑسی لگی ہوئی
ہے کہ یورپ اور امریکہ کا ویزا مل جائے، اس میں کچھ زیادہ
برائی نہیں کہ تلاشِ معاش کے لیے دوسرے ملکوں کا سفر کیا
جائے؛ اس لیے کہ خوش عیشی ایک فطری خواہش ہے؛ لیکن
لوگ اسی پر بس نہیں کرتے؛ بلکہ اکثر لوگوں کی یہ خواہش
ہوتی ہے کہ انھیں ’’گرین کارڈ‘‘ مل جائے اور وہ وہاں کے شہری
قرار دیے جائیں اور پھر رفتہ رفتہ ان کا اپنے وطنِ اصلی سے
رابطہ وتعلق بھی ختم ہوجاتا ہے، وہ اپنی آبائی تہذیب
وثقافت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کا ذہنی اور فکری زاویہ
بدل جاتا ہے اور وہ اپنی اصلی شناخت سے دست بردار ہوکر مغرب کے ذہن
وفکرسے سوچنے لگتے ہیں، اور ان کا اپنا ملک (جس میںان کی پیدائش
ہوئی، جہاں کی غذا کھاکر ان کی نشونما ہوئی، جہاں کی
ہوا اور مٹی نے انھیں چلنا سکھایا، جہاں کی آب
وہوا اور ماحول سے ان کے اندر سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی)
ان کے لیے ایک اجنبی ملک بن جاتا ہے اور بہت بڑے ثقافتی
وعقلی اور مادی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
کارٹل یونیورسٹی، امریکہ
کے پروفیسر ’’باکنز‘‘ کے مطابق ۱۹۴۹ سے ۱۹۶۱کے
دوران ۴۳ ہزار انجینئروں اور (۱۱۰۰۰) گیارہ ہزار ڈاکٹروں نے اسلامی ملکوں سے مغرب کی
طرف ہجرت کی، ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۶ سے ۱۹۷۷کے
دوران امریکہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلم سائنس دانوں کی تعداد
ایک لاکھ نو ہزار دو سو تریپن (۱۰۹۲۵۳)
ہے۔
(حاشیہ
المواطنہ فی غیردیار الإسلام)
اسی طرح ایک دیگر چونکادینے والے
اعداد وشمار کے مطابق پورے ’’الجزائر‘‘ میں ڈاکٹروں کی جتنی
تعداد ہے، اس سے کہیں بڑی تعداد الجزائری ڈاکٹر ’’پیرس‘‘
میں رہتے ہیں اور ’’نیویارک‘‘ میں رہنے والے ایرانی
ڈاکٹروں کی تعداد خود ایران میں رہنے والے ڈاکٹروں سے زیادہ
ہے (www. Midle Cast Oneline Come 3/9/2009)
کم وبیش ڈیڑھ دہائی میں اس ہجرت کے رجحان کی وجہ سے
اسلامی ملکوں کا ۲۰۰
ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ (رپورٹ منظمۃ العمل العربیہ
۲۰۰۳)
۲۰۱۰ کی تازہ رپورٹ کے مطابق عرب ملکوں سے ’’امریکہ‘‘
اور ’’کناڈا‘‘ کی ہجرت کرنے کا سالانہ اوسط کچھ اس طرح ہے:
ڈاکٹر ۵ فیصد، انجینئر ۲۳ فیصد، سائنس داں ۱۵فیصد (WWW.CNN ARABIC. COM 11/11/2010)
بڑوں کی پیروی کرتے
ہوئے، اب نئی نسل نے بھی مغرب کو اپنا رازق مان لیا ہے، وہ بھی
تھوڑے پر گذارہ نہیں کرسکتے، انھیں بھی جائز وناجائز خواب پورا
کرنے ہیں، انھیں بھی آسمان کی بلندیوں پر
اڑنا ہے، انھیں بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنا ہے؛ چنانچہ مصر کے غیرممالک
میں تعلیم حاصل کرنے والے ۷۰ فیصد طلبہ نے غیرممالک میں ہی سکونت
اختیار کرلی ہے؛ جبکہ عراق میں یہ شرح ۸۰ فیصد ہے اور لبنان کے ۹۰ فیصد طلبہ نے بھی غیرممالک میں ہی
رہائش اختیارکرلی ہے۔
عربی CNN
نے ۱۱/نومبر ۲۰۱۰ء کو ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ فی الحال اوسطاً
ہر سال ۵۴ فیصد عرب طلبہ جن غیرملکوں میں اعلیٰ
تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں، وہاں سے واپس نہیں لوٹتے؛ بلکہ وہیں
بودوباش اختیار کرلیتے ہیں اور وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
اس حیرت انگیز اور تکلیف
دہ انکشاف کے بعد مسلم حکومتوں کو مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور
انھیں اس نقصان دہ ہجرت کے سدِباب کے لیے مناسب قانونی نہیں؛
بلکہ ترغیبی اقدام کرنے ہوں گے؛
تاکہ باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کی قدرہوسکے اور
انھیں ان کا جائز مقام مل سکے، ایسا نہیں کہ اس کی وجہ سے
صرف ان افراد کا فائدہ ہوگا؛ بلکہ ان کی صلاحیتوں کے صحیح
استعمال سے ملک اور قوم کی بھی ترقی ہوگی اور ڈاکٹر
’’عبدالقدیر‘‘، ڈاکٹر ’’عبدالکلام‘‘ اور ’’نیراحمد خاں‘‘ جیسے
لوگ دنیا میں ملک اور قوم کا قد بلند کریں گے، اسی طرح ان
باصلاحیت افراد کو بھی اپنے ملک وقوم کے لیے تھوڑی قربانی
دینی ہوگی، مغرب کے مقابلے کم پیسوں میں خدمت کے
جذبے کے ساتھ اپنی استعداد وصلاحیت کو ملک و قوم کے لیے وقف
کرنا ہوگا؛ تاکہ ملک وقوم ان کے تعاون سے ترقی کے منازل طے کرسکیں اور
اپنے ملک میں ہی رفتہ رفتہ انھیں وہ تمام سہولتیں مل جائیں،
جن کے لیے وہ مغرب کا رخ کرتے ہیں۔
***
----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ،
جلد: 95 ، محرم الحرام 1433 ہجری
مطابق دسمبر 2011ء